Skip links

Stipulating That the Husband May Not Marry Again

6829 – 0213

Hope Moulana is well bifadhlillah

Moulana when a girl is getting married, can she stipulate in the contract that the husband cannot have another wife while being married to her?

Does it fall under making haraam what Allah made halaal for him?

 Does it make any difference If it’s stipulated at the time of making nikaah or after they’ve already been married for a while?

As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhu

In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.

Sister in Islām,

Since the fundamental Islamic ruling is that a man is permitted to have up to four wives, provided he establishes justice among them and bears their maintenance, implementing such a condition is against the principles of Sharīʿah.

Promoting and making common such a condition is an opposition to this permission and hinders the wisdom of Sharīʿah regarding polygyny. Moreover, a second marriage is a Sunnah and, provided there is safety from injustice, it is a source of benefit. Furthermore, acting upon the directive of Rasūlullāh صلى الله عليه وسلم, “Marry loving and fertile women, for I will boast of your numbers before the ummahs” is hindered by these conditions. We should thus strive to eliminate and abandon such conditions.

Sister, such a condition will fall under making ḥarām what Allāh Taʿālā has made ḥalāl. The ruling would be the same whether the condition is made at the time of nikāḥ or after.

According to the Ḥanafī Madhhab if the nikāḥ is performed with the condition that the husband will not marry a second time, the nikāḥ will be valid (i.e., solemnized), and the condition will be void.

And Allāh Taʿālā knows best.

السنن الكبرى — أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب النسائي (ت 303 هـ) رقم ٥٣٢٣

 أخبرنا عبد الرحمن بن خالد الرقي القطان، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: أخبرنا المستلم بن سعيد، عن منصور بن زاذان، عن معاوية بن قرة، عن معقل بن يسار، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب ومنصب إلا أنها لا تلد أفأتزوجها؟ فنهاه ثم أتاه الثانية، فنهاه ثم أتاه الثالثة، فقال: «‌تزوجوا ‌الولود الودود، فإني مكاثر بكم»

العناية شرح الهداية — أكمل الدين، محمد بن محمد بن محمود البابرتي (ت 786 هـ) 350/3

قال (وإذا تزوجها على ألف على أن لا يخرجها من البلدة) قد تقدم أن النكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة فإذا تزوج امرأة على ألف على أن لا يخرجها من البلدة (أو على أن لا يتزوج عليها) أو على أن يطلق فلانة فالنكاح صحيح وإن كان شرط عدم التزوج وعدم المسافرة وطلاق الضرة فاسد لأن فيه المنع عن ‌الأمر ‌المشروع

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ — عثمان بن علي الزيلعي الحنفي (ات ٧٤٣ هـ) —  149/2

وقال عليه الصلاة والسلام «المسلمون على شروطهم إلا شرطا أحل حراما أو حرم حلالا» وهذه الشروط تحرم الحلال كالتزوج والمسافرة بها والتسري ونحو ذلك فكانت مردودة

فتاوی رشیدیہ— رشيد بن هداية أحمد الأنصاري الكنكوهي — (١٣٢٣ هـ)   ص  455

نكاح کے وقت کسی دوسری عورت سے نکاح نہ کرنے کی شرط
سوال: بعض اہلسنت حنفی مذہب عقد نکاح میں ناکح سے یہ شرط کرتے ہیں کہ اگر اس منکوحہ کے سوا اور دوسری عورت سے نکاح کیا تو اس کو طلاق اور مضمون کی ایک دستاویز بھی شوہر سے لکھوا لیتے ہیں اس صورت میں نکاح مذکور صحیح ہے یا فاسد اور ایسی شرط کرنا اور دستاویز لکھا لینا درست ہے یا نہیں درصورت عدم جواز حاکم مسلم کی ممانعت اس امر خلاف شرع سے پہنچتی ہے یا نہیں جو کچھ حق صریح اس بات میں ہو باشہادت اور عقلیہ ونقلیہ زیب قلم فرما ویں۔
جواب: یہ نکاح شرعاً صحیح و معتبر ہے اور اس تعلیق سے نکاح میں فساد نہیں آتا اور تعلیق بھی شرعاً معتبر اگر اس شرط پر نکاح کیا گیا ہے تو خاوند کے دوسر ے نکاح کرنے سے اس پر طلاق پڑ جائے گی۔ فی الدر المختار فی بیان التعلیق ھو ربط حصول مضمون جملۃ محصول مضمون جملۃ اخرٰی بشرط الملک کقولہ لمنکوحتہ ان ذھبت فانت طالق اوالاضافۃ الیہ کان نکحت امراۃ او ان نکحتک فانت طالق و کذا کل امراۃ انتھیٰ۔
مگر چونکہ اصل مسئلہ شرعیہ یہ ہے کہ مرد کو بشرط اقامت عدل بین الازواج و تحمل نان نفقہ چار تک زوجات درست ہیں اس لئے ایسی شرط رائج کرنا ہرگز اصول شریعت کے سزاوار و مطابق نہیں۔ قال اللہ تعالیٰ الرجال قوامون علی النسآء بما فضل اللّٰہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالہم وقال عزا سمہ فانکحوا ماطالب لکم من النساء مثنی و ثلث ورباع اقل درجات امرا باحت یہ ہے پس اس میں اشتراط مذکور رواج و شائع کرنا بیشک اس اباحت کی مخالفت اور حکمت شریعہ تعدد ازواج کو روکتا ہے بلکہ بعض اوقات بسبب بعض ضرورت کے نکاح ثانی کی سخت احتیاج ہو جاتی ہے حالانکہ نکاح ثانی سنت ہے اور بشرط عدم خشیۃ میل و اقامت عدل و امن از جور موجب نفع ہے اور نیز مقتضائے شریعت   تزوجواالودودالولود فانی مکاثربکم الامم۔ پر عمل ان وجوہ سے بوجہ ان اشتراط کے موقوف کرتے ہیں سعی مناسب ہے اور جس مسلمان حاکم کی ریاست میں اس کا شیوع ہو اس کو چاہیے کہ اس کے رفع میں کوشش کرے اور بجبران لوگوں سے ترک کروادے فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن — فتوی نمبر : 144411102223

صورتِ  مسئولہ میں نکاح کے وقت مردپر دوسری شادی نہ کرنے کی شرط لگانا خلافِ شرع ہے اور  اگر اس شرط پر  نکاح  کیا جائے کہ دلہا دوسری شادی نہیں کرے گا تو نکاح منعقد ہوجائے گا  اور شرط باطل ہوجائے گی۔ لہذا مذکورہ شخص کو دوسری شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرط نہیں ہے ۔البتہ  بیک وقت ایک سے زیادہ (چارتک) شادیوں کے لیے شرعاً اتنی بات ضروری ہے کہ شادی کرنے والا تمام بیویوں کے جسمانی ومالی حقوق ادا کرنے اور ان کے درمیان واجب حقوق میں برابری پر قدرت رکھتاہو۔