Skip links

Taking a Salary from a Partnership & Masbūq Leading Others in Ṣalāh

6829 – 0208

1) can an active partner in a partnership take a salary on his own? without a prior consult and agreement with his partner?

2) i notice that sometimes in the musjid near me (more frequented by Malawi brothers) when i miss a rakat whilst i am standing to complete the missed rakat/s a brother will tap my shoulder and stand on my side as if i must be the imam and he the follower. is this allowed? what should i do?

As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhu

In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.

  1. In principle, it is not permissible for a partner in a partnership to take a fixed salary from the partnership. If one partner undertakes more responsibilities than the other, he may stipulate for himself a greater share of the profit through mutual agreement. However, due to the common practice of our times (ʿUrf), some Fuqahā’ have permitted the partner who carries out the work to receive a fixed salary from the partnership on condition that two separate contracts are in place: one outlining his ownership share in the partnership, and a completely separate, independent contract defining his role as an employee.
  2. According to the Ḥanafī Madhhab, a Masbūq (latecomer in Ṣalāh) cannot be an Imām for others. If someone joins you while you are completing your missed Rakʿāt, you should continue your Ṣalāh as you would perform it individually. After completing your Ṣalāh, politely explain to the brother who joined you that his following you was not valid, as you were a Masbūq and thus not in a position to lead the prayer.

And Allāh Taʿālā knows best.

 بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع — علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (ت ٥٨٧هـ) 4/ 190

وعلى هذا يخرج ما إذا استأجر رجلا على العمل في شيء هو فيه شريكه نحو ما إذا كان بين اثنين طعام فاستأجر أحدهما صاحبه على أن يحمل نصيبه إلى مكان معلوم والطعام غير مقسوم فحمل الطعام كله أو استأجر غلام صاحبه أو دابة صاحبه على ذلك؛ أنه لا تجوز هذه الإجارة عند أصحابنا وإذا حمل لا أجر له……. ولنا أنه أجر ما لا يقدر على إيفائه لتعذر تسليم الشائع بنفسه فلم يكن المعقود عليه مقدور الاستيفاء وإنما لا يجب الأجر أصلا؛ لأنه لا يتصور استيفاء المعقود عليه إذ لا يتصور حمل نصف الطعام تبايعا ووجوب أجر المثل يقف على استيفاء المعقود عليه ولم يوجد فلا يجب

الفتاوى التاتارخانية — الشيخ الامام فريد الدين عالم بن العلاء الإندربتي الدهلوي الهندي (ت ٧٨6 هـ) 15/ 156

٢٢٥٥٥:- وفي الكبرى: ذكر القدورى كل شئ لا يستحق به الأجرة إلا بايقاع العمل في العين المشتركة، فإذا استأجر أحد الشريكين الآخر لم يجز مثل أن يستأجر لنقل الطعام بنفسه أو بغلامه أو دابته،

فتاوی قاسمیہ   — حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی ۔ 20/ 56

مذکورہ صورت میں عالم صاحب نے مسئلہ صحیحبتایا ہے کہ دوکان کے منافع میں بھی سب لوگ برابر شریک ہوں اور دوکان میں بیٹھنے والے کے لئے نفع میں شریک ہونے کے ساتھ اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ اس کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ جو بھائی دوکان میں بیٹھ کر دوکان چلا رہا ہے، اس کے لئے نفع کی مقدار میں زیادتی کی جائے ،

فتاوی رحیمیہ  — مفتی سید عبد الرحیم لاجپوری   (ت ١٤١٥ هـ) 3/ 548

صورت مسئولہ میں خالد دکان میں شریک بھی ہو اور کام کرنے کی وجہ سے اجیر بن کر تنخواہ بھی لے، یہ صورت جائز نہیں ہے۔ شرکت اور اجارہ ( ملازمت ) ایک عقد میں جمع نہیں ہو سکتے ، اس سے عقد فاسد ہو جاتا ہے، البتہ سب شرکاء اپنی رضا مندی سے زیادہ کام کرنے والے کے لیے منافع کی مقدار حصے کی اعتبار سے کچھ زیادہ مقرر کر دیں تو یہ صورت جواز کی ہو سکتی ہے۔

احسن الفتاوی — مفتی اعظم مفتی رشید احمد صاحب (ت ١٤٢٢هـ) 7/ 328

نصوص مذکورہ سے امور ذیل ثابت ہوئے : شریک کو اجیر رکھنے کا عدم جواز کسی نص شرعی سے ثابت نہیں ۔؛ حضرت امام رحمہ اللہ تعالیٰ سے کبھی اس بارہ میں کوئی روایت نہیں؛ امام محمدرحمہ اللہ تعالی کا قول ہے مگر آپ سے آپکی کوئی علت منقول نہیں ۔۔۔۔ ترک نص شرعی کیلئے تعامل عام شرط ہے مگر ترک مذہب کیلئے تعامل خاص بھی کافی کی؛ مذہب حنفی ہونے کی حیثیت سے اقوال صاحبین رحمہما اللہ تعالی سے تعامل پر مبنی احکام مقدم ہیں  ؛ نص مذہب کو تو تعامل خاص سے بھی ترک کر دیا جاتا ہے اور کمپنی کے شر کار کو اجیر رکھنے کا تو تعامل عام ہے، لہذا اس میں بطریق اولی نص مذہب متروک ہوگی ، بالخصوص جبکہ یہ نص امام بھی نہیں بلکہ قول امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ ہے جس سے تعامل مقدم ہے ۔۔۔۔ علاوہ ازیں مضاربت سے بھی اسکی تائید ہوتی ہے ، مضارب عمل مشترک سے نفع حاصل کرتا ہے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم

فتاوی قاسمیہ   — حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی ۔  20/ 58

اگر اس طریقہ سے کیا جائے کہ اولا دونوں کا روبار میں برابر پیسے دے کر کے شریک ہو جائیں اور دونوں نفع و نقصان میں برابر کے شریک ہو جائیں، اس کے بعد دوسرا معاملہ الگ سے کیا جاوے کہ جو کام جانتا ہے، وہ الگ سے اجرت لے کر کام کرتا رہے گا ، ایسی صورت میں دو معاملے الگ الگ ہو جائیں گے۔ کام کرنے کی وجہ سے اس کو اجرت ملا کرے گی اور اجرت کا تعلق نفع و نقصان سے نہیں ہے اور اس طرح کے معاملہ کو حضرت تھانوی نے امداد الفتاوی میں اسی وجہ سے جائز قرار دیا ہے، مگر صاحب احسن الفتاوی نے احسن الفتاوی میں تعامل ناس کی وجہ سے دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا ہے۔ فقط واللہ سبحانہ و تعالی اعلم

[3]  المحيط البرهاني — برهان الدين أبو المعالي محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (ت 616 هـ) 1/ 428

يقول: أصحابنا جعلوا المسبوق فيما يقضي كالمنفرد إلا في ثلاث مسائل. إحداها: أنه ‌إذا ‌قام ‌إلى ‌قضاء ‌ما ‌سبق ‌به ‌فجاء ‌إنسان ‌واقتدى ‌به لا يصح اقتداؤه، ولو كان كالمنفرد يصح اقتداؤه، كما لو كان منفرداً حقيقة.

الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية—  جماعة من العلماء 1/ 92

(ومنها) أنه منفرد فيما يقضي (إلا في أربع مسائل):(إحداها) أنه لا يجوز اقتداؤه ولا الاقتداء به فلو اقتدى مسبوق بمسبوق فسدت صلاة المقتدي قرأ أو لم يقرأ دون الإمام كذا في البحر الرائق

رد المحتار على الدر المختار— ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (ت 1252هـ) 1/ 596

(والمسبوق من سبقه الإمام بها أو ببعضها وهو منفرد) حتى يثني ويتعوذ ويقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بها لكراهتها مفتاح السعادة (فيما يقضيه) أي بعد متابعته لإمامه، فلو قبلها فالأظهر الفساد، ويقضي أول صلاته في حق قراءة، وآخرها في حق تشهد؛ فمدرك ركعة من غير فجر يأتي بركعتين بفاتحة وسورة وتشهد بينهما، وبرابعة الرباعي بفاتحة فقط، ولا يقعد قبلها (إلا في أربع) فكمقتد أخذها……

(قوله إلا في أربع) استثناء من قوله وهو منفرد فيما يقضيه (قوله لا يجوز الاقتداء به) وكذا لا يجوز اقتداؤه بغيره كما في الفتح وغيره، ولا حاجة إلى زيادته لأن المنفرد كذلك

فتاوی دار العلوم زکریا — حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم ۔  2/ 393

سوال : امام کے سلام کے بعد مسبوق بقیہ نماز پڑھ رہا تھا ایک شخص نے آکر اس کی اقتداء کر لی تو یہ اقتدار صحیح ہے یا نہیں ؟

الجواب : مسبوق واجب الانفراد ہوا ہے امام نہیں بن سکتا ہے لہذا صورت مسئولہ میں یہ اقتد صحیح نہیں ہوئی۔