Skip links

Muslim Slaughtering an Animal which was Shot by a Non-Muslim

6829 – 0156

If a non-Muslim shoots a hunting animal, then the Muslim farmer goes to the animal, takes the name of Allāh, and slaughters the animal, will the animal be Ḥalāl?

As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhu

In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.

If the shot of a non-Muslim injures or slows down the animal without completely killing it, and a Muslim farmer subsequently slaughters the animal with taking the name of Allāh ﷻ, then the animal will be considered Ḥalāl.

However, if the animal dies from the bullet shot by the non-Muslim, or if the animal is shot in the neck and that shot causes such extensive damage that the veins which are required to be cut during slaughter are already severed, then the animal will not be Ḥalāl.

And Allāh Taʿālā knows best.

 الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار — محمد بن علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن الحنفي الحصكفي (ت ١٠٨٨ هـ) ص643

(‌ذبح ‌شاة) ‌مريضة (فتحركت أو خرج الدم حلت وإلا لا إن لم تدر حياته) عند الذبح، وإن علم حياته (حلت) مطلقا (وإن لم تتحرك ولم يخرج الدم) وهذا يتأتى في منخنقة ومتردية ونطيحة، والتي فقر الذئب بطنها فذكاة هذه الاشياء تحلل، وإن كانت حياتها خفيفة، وعليه الفتوى، لقوله تعالى: * (إلا ما ذكيتم) * من غير فصل، وسيجئ في الصيد.

الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية—  جماعة من العلماء 5/ 428

ذبح ‌شاة ‌مريضة، وقد بقي فيها من الحياة مقدار ما يبقى في المذبوح بعد الذبح فإنها لا تقبل الذكاة عند أبي يوسف ومحمد – رحمهما الله تعالى – واختلف المشايخ فيه على قول أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – ونص القاضي الإمام المنتسب إلى إسبيجاب في شرح الطحاوي أنه يقبل الذكاة، وعليه الفتوى كذا في الظهيرية.

رد المحتار على الدر المختار— محمد أمين، الشهير بابن عابدين (ت ١٢٥٢ هـ) 6/ 308

قال في المنح: لأن الأصل بقاء ما كان على ما كان فلا يحكم بزوال الحياة بالشك (قوله وهذا يتأتى في منخنقة إلخ) أي ومريضة كما يأتي في كتاب الصيد (قوله والتي فقر الذئب بطنها) الفقر: الحفر، وثقب الخرز للنظم: وفي بعض النسخ بقر بالباء الموحدة: أي شق (قوله وإن كانت حياتها خفيفة) في بعض النسخ خفية والأولى أولى، وذلك بأن يبقى فيها من الحياة بقدر ما يبقى في المذبوح بعد الذبح كما في البزازية وفيها: شاة قطع الذئب أوداجها وهي حية لا تذكى لفوات محل الذبح، ولو انتزع رأسها وهي حية تحل بالذبح بين اللبة واللحيين (قوله وعليه الفتوى) خلافا لهما

احسن الفتاوی — مفتی اعظم مفتی رشید احمد صاحب (ت ١٤٢٢هـ)  7/  386

سوال : ایک مسلمان شکاری نے ایک ہرن کو گولی مار کر زخمی کر کے گرا دیا ، اگر کافر یعنی ذکری اس ہرن کو ذبح کرے تو یہ ہرن حلال ہوگا یا حرام ؟ اگر اس کے برعکس کافر شکاری نے ہرن کو گولی مار کر گرا دیا ، اگر مسلمان اس کو ذبح کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

الجواب:………………دوسری صورت میں اگر اس میں حیات فوق المذبوح نہو تو عند الصاحبین رحمہما اللہ تعالیٰ حرام وعند الامام رحمہ اللہ تعالیٰ حلال ہے ، وعلیہ الفتوی ۔

اور حیات فوق المذبوح ہو تو بالاتفاق حلال ہے ۔

فتاوی قاسمیہ   — حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی ۔  22/  97

جب شکار اس حالت میں پکڑا جائے کہ اس میں زندگی باقی ہے تو اس کے حلال ہونے کے لیے ذبح شرط ہے اور ذبح بھی مسلمان کے ہاتھ سے بسم اللہ پڑھ کر ہونا لازم ہے اس سے پہلے پہلے غیر مسلم نے اس کو مار کر کمزور کر دیا ہو تو اس کا اعتبار نہیں بلکہ بوقت ذبح کا اعتبار ہے، اس لیے مسلمان جب اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے ہیں تو شکار حلال ہوگا

 الفتاوى العالمكيرية المعروفة بالفتاوى الهندية—  جماعة من العلماء 5/ 291

شاة ‌قطع ‌الذئب أوداجها وهي حية لا تذكى لفوات محل الذبح، كذا في الوجيز للكردري.

رد المحتار على الدر المختار— محمد أمين، الشهير بابن عابدين (ت ١٢٥٢ هـ) 6/ 308

وفيها: ‌شاة ‌قطع ‌الذئب أوداجها وهي حية لا تذكى لفوات محل الذبح، ولو انتزع رأسها وهي حية تحل بالذبح بين اللبة واللحيين (قوله وعليه الفتوى) خلافا لهما

فتاوی محمودیہ – فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ (ت ١٤١٧هـ) 17/  285

اگر رگہائے مذکورہ بالا باقی تھیں یعنی گردن کا اتنا حصہ باقی تھا جس میں یہ رگیں ہوتی ہیں اور پھر ذبح کر دیا گیا تو درست ہو گیا اگر چہ سر باقی نہیں رہا تھا۔ اگر یہ رگیں باقی نہیں رہی تھیں، یعنی گردن کا اتنا حصہ بھی نہیں رہا تھا جس میں یہ رگیں ہوتی ہیں تو ذبح درست نہیں ہوا

فتاوی دار العلوم زکریا — حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم ۔  6/  177

سوال: ایک شخص نے پرندہ کو بندوق سے گولی ماری بسم اللہ نہیں پڑھی، پرندے کی گردن کٹ گئی ، تھوڑی سی باقی تھی اس پر بسم اللہ پڑھ کر چھری چلا دی اس ذبح کا شرعا اعتبار ہوگا یا نہیں ؟

 الجواب: بصورت مسئولہ اگر ذبیح کامل یعنی حلق کی چار رگیں باقی تھیں اور بسم اللہ پڑھ کر چاروں کو کاٹ دیا تو ذبیحہ حلال ہوگا، ورنہ اس ذبح کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور ذبیحہ حرام ہوگا۔