Skip links

Returning the Mahr for issuing a Ṭalāq

6829 – 0128

Asalaamu alaikum

2 months ago I have decided to leave my marital home for various reasons. I have asked for a talaaq.  My husband has now asked for the mahr back upon the issuing of the talaaq. Is this acceptable? Should I return the mahr?

JazakAllah

Clarification:

The talaaq has not been issued yet.

He is asking for the mahr back after which he will issue the talaaq.

JazakAllah

As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhu

In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.

If a woman’s rights are not being fulfilled in her marriage, and attempts to reconcile have failed, she may request a Ṭalāq. If the husband refuses to issue a Ṭalāq, the woman may opt for Khulaʿ.

Khulaʿ involves the separation of the spouses with the condition of the wife returning the Mahr or giving some other monetary consideration in exchange of the Ṭalāq. When both spouses agree on an amount and accept the Khulaʿ, it will constitute a Ṭalāq-e-Bā’in (irrevocable divorce) and the wife will be obliged to pay the agreed-upon amount.

Therefore, in your scenario, it is permissible for you to accept the offer of your husband and return the Mahr in exchange of a Ṭalāq being issued.

And Allāh Taʿālā knows best.

 شرح مختصر الطحاوي — أبو بكر الرازي الجصاص (ت ٣٧٠ هـ) 4/ 454

ومن وقع بينه وبين زوجته شقاق: فله أن يطلقها على جعل يأخذه منها

النتف في الفتاوى — أبو الحسن علي بن الحسين بن محمد السُّغْدي (ت ٤٦١ هـ) 1/ 367

احدها ان يخلعها بمال يأخذه منها سوى المهر والثاني ان يخلعها بنفقة عدتها والثالث ان يخلعها بمهرها والرابع ان يخلعها برضاع ولدها منه الى الحولين والخامس أن يخلعها بنفقة ولدها منه إلى سنة والى سنتين او اكثر وان مات الولد في بعض السنة اخذ منها نفقة الباقي وكل هذا جائز ويحل للزوج ما يأخذ منها اذا كان النشوز من قبلها والافضل ان لا يأخذ الا ما اعطاها من المهر اذا كان النشوز من قبله ولا يحل له شيء من ذلك

الهداية في شرح بداية المبتدي — أبو الحسن، برهان الدين، علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني المعروفُ بـصاحب الهداية (ت ٥٩٣هـ) 2/ 261

“وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به ” لقوله تعالى: {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229] ” فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال

فتاوی محمودیہ – فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ (ت ١٤١٧هـ) 341 /17

اگر تخالف طبائع یا کسی اور وجہ سے زوجین میں نباہ دشوار ہو جائے اور شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو تو شریعت سے اس کی بھی اجازت ہے کہ عورت اور مرد خلع کر لیں یعنی لفظ خلع یا اس کے ہم معنی کسی لفظ سے زوجین حقوق زوجین کو ساقط کر دیں ، مثلاً زوجہ اپنا مہر ساقط کر دے اور زوج اپنی ملک نکاح کو زائل کر دے، یا عورت کچھ مال دیدے اور زوج اپنی ملک نکاح کو زائل کر دے۔ یہ خلع ح شرعاً طلاق بائن کے حکم میں ہوتا ہے اور اس سے مہر اور نان و نفقہ وغیرہ سب ساقط ہوجاتا ہے، البتہ نفقہ عدت اور ایام عدت کا سکنی زائل نہیں ہوتا ، ہاں ! اگر اس کی تصریح کردیں گے، یا فقط مرد تصریح کر دے گا تو یہ نفقہ بھی زائل ہو جائے گا، سکنی پھر بھی زائل نہ ہوگا۔ اگر زیادتی اور تعدی مرد کی طرف سے ہو تو اس کو عورت سے کچھ مال لینا ضلع کے عوض مکروہ تحریمی ہے، اگر عورت کی طرف سے زیادتی ہو تو مرد کو مال لینا درست ہے

فتاوی قاسمیہ   — حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی ۔386 /16

خلع کا مطلب یہ ہے کہ بیوی مہر معاف کرنے کی شرط پر یا مخصوص مال جو جانبین کی رضا مندی سے طے ہو جائے اس کے دینے پر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کو لے کر طلاق دینے پر راضی ہو جائے لیکن شوہر کی رضا مندی کے بغیر یہ خلع مشروع نہیں ہے۔