6829 – 0121
Question:
ا لسلام عليكم
Respected mufti
Zakaat and lillah monies were paid to an organization.
There was a break in and all the money was stolen even though the place was properly locked.
Is the zakaat discharged?
Answer:
As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhu
In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.
Respected Sister,
There are two types of wakīls (representatives) that accept Zakāt for distribution:
Firstly, those who accept Zakāt funds to distribute to unspecified eligible recipients. Such individuals or organisations are given Zakāt to distribute to eligible individuals of their choice.
If the funds were stolen from a wakīl of this type, the Zakāt has not been fulfilled. It will have to be paid again. In this case, the individual or trustees should inform all those who had deposited their Zakāt funds for distribution of the theft so they may discharge their Zakāt once again.
The wakīl is an amīn (entrusted). If he was not negligent in the safekeeping of the Zakāt money, he does not have to pay back anything. If he was negligent, he will have to pay it back.
Secondly, those, like a madrasah collector, who serve in the capacity of a wakīl of behalf of the students. When a wakīl takes possession, it is equal to the possession of the one who appointed him. Accordingly, by such a wakīl taking possession of the Zakāt funds, the Zakāt will be discharged and will not have to be repaid.
If he made appropriate arrangements for the safeguarding of the money, and then it gets lost or is stolen, he does not have to pay it back. However, if he was negligent with regards to its safeguarding, he will have to pay back the amount.
And Allāh Taʿālā knows best.
فتاوی محمودیۃ — مفتی محمود الحسن گنگوہی 480/9
ایک شخص نے اپنے مال وغیرہ کا حساب لگا کر جتنی زکوۃ اس پر واجب ہوتی تھی نکال کر علیحدہ کر دی، اب اس کی جیب کسی نے کاٹ لی یا کسی طرح اس کی زکوۃ کی رقم ضائع ہوگئی ، اس شکل میں اس کی زکوۃ ادا ہوگئی یا دوبارہ ادا کرنا ہو گی ؟ اسی طرح فطرہ کی گم شدہ رقم کا حکم بیان فرمائیں۔
الجواب حامداً و مصلياً: اس طرح زکوۃ ادا نہیں ہوئی نہ فطرہ اداہوا، زکوۃ اور فطرہ ادا کریں ، شامی فقط واللہ سبحانہ تعالی اعلم۔
فتاوی دارالعلوم زکریا — مفتی رضاء الحق 199/3
سوال : ایک شخص نے دوسرے کو زکوۃ کی رقم دی اس وکیل سے رقم چوری ہوگئی تو زکوۃ اداہوئی یا نہیں؟ نیز اس وکیل پر تاوان آئے گا یا نہیں؟
الجواب: مستحقین اگر متعین نہیں تھے بلکہ اپنی صوابدید پر زکوۃ کی رقم خرچ کرنا تھا تو زکو ۃ ادانہیں ہوئی بلکہ دوبارہ ادا کرنا لازم ہے، اور وکیل امین ہوتا ہے اگر اس نے حفاظت میں کوتاہی نہیں کی تھی تو تاوان نہیں آئےگا ور نہ وکیل ذمہ دار ہوگا۔ اور اگر مستحقین متعین تھے مثلا وہ کسی ادارے کا سفیر یا مہتمم تھا تو اس کا حکم ذکر کیا جا چکا
فتاوی دارالعلوم زکریا — مفتی رضاء الحق 195-194/3
سوال: کسی نے مدرسہ کے سفیر کو زکوۃ کی رقم دیدی وہ رقم اس سفیر سے گم ہوگئی یا چوری ہو گئی اب دو
باتیں دریافت طلب ہیں زکوۃ ادا ہوئی یا نہیں؟ سفیر ضامن ہوگا یا نہیں؟
الجواب : اکابر کا اتفاق ہے کہ سفیر مدرسہ کے نادار طلباء کا وکیل ہے اور وکیل کا قبضہ موکل کے
قبضہ کے برابر ہے اس اعتبار سے زکوۃ ادا ہوگئی۔
سفیر وکیل اور امین ہے لہذا حفاظت کا اچھی طرح انتظام کیا تھا پھر بھی گم ہو گئی یا چوری ہو گئی تو تاوان نہیں
آئے گا لیکن اگر کوتاہی کی ہے تو تاوان آئے گا۔
ملاحظہ ہو ایضاح المسائل میں ہے:
اگر مدارس کے سفراء کے ہاتھ سے زکوۃ کی رقم چوری ہو جائے یا مہتمم کے ہاتھ سے چوری یا ضائع ہو جائے اور ان کی حفاظت میں کوئی کمی نہیں رہی ہے تو ان لوگوں پر تاوان لازم نہ ہوگا ، اور مالک کی زکوۃ بھی ادا ہو جائےگی۔ اس لئے کہ یہ لوگ عملا و عرفا فقیر طلب کے وکیل ہیں اور وکیل کا قبضہ کو یا فقیر کا قبضہ ہے۔ اور اگر ان لوگوں نے حفاظت میں کوتاہی کی ہے یازکوۃ کی رقم میں تبدیلی کی ہے یا اپنی رقم کے ساتھ مخلوط کر دیا ہے تو ان لوگوں پر تاوان واجب ہوگا، اور اپنی جیب سے اتنی رقم فقراء کو دینا لازم ہوگا۔ (ایضاح المسائل: ص ۱۳۰، نعیمیه)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
مہتمم مدرسہ اگر طلبا کا وکیل ہے تو اس کا قبضہ طلباہی کا قبضہ ہے لہذ از کوۃ ادا ہوگئی کسی پر ضمان لازم نہیں۔
( فتاوی محمودية ۵۱۳/۹ مبوب و مرتب ).
امداد المفتين میں ہے:
مہتمم ين مدرسہ اور ان کے مقرر کردہ چندہ وصول کرنے والے عاملین صدقہ کے حکم میں داخل ہو کر فقراء کے وکیل ہیں معطین چندہ کی وکالت صرف اس درجہ میں ہے کہ انہوں نے ان حضرات کو وکیل تسلیم کر کے اپنا چندہ ان کے حوالہ کر دیا تو جب بحیثیت وکیل فقراء رقم ان کے قبضہ میں چلی گئی تو وہ فقراء کی ملک ہوگئی ، اور زکوۃ دینے والوں کی زکوۃ ادا ہوگئی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی ایک سوال کے جواب میں فرمایا: یہ طلباء وفقراء مجبول الکمیت والذات ہیں اس کے باوجود ان کی وکالت مہتممان مدرسہ کے لئے عرفی طور پر ثابت ہو گئی اور ان کاقبضہ فقراء کا قبضہ ہو گیا۔ (امداد المفتين: جلد دوم ۱۹۸۵، اختيار الصواب ، دار الاشاعت ) .
مزید ملاحظہ ہو: فتاوی خلیلیه : جلد اول : ۱۵۴، باب المصرف مكتبة الشيخ – وجدید فقہی مسائل : ۲۲۶/۱، نعیمیه )۔
رد المحتار على الدر المختار— ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (ت ١٢٥٢ هـ) 270/2
(قوله: ولا يخرج عن العهدة بالعزل) فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة
البحر الرائق شرح كنز الدقائق — زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (ت ٩٧٠هـ) 227/2
وبه يعلم حكم من يجمع للفقراء، ومحله ما إذا لم يوكلوه فإن كان وكيلا من جانب الفقراء أيضا فلا ضمان عليه
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار— محمد بن علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن الحنفي الحصكفي (ت ١٠٨٨ هـ) 551
كتاب الإيداع – لا خفاء في اشتراكه مع ما قبله في الحكم، وهو الأمانة (هو) لغة: من الودع أي الترك وشرعا (تسليط الغير على حفظ ماله صريحا أو دلالة)… (وهي أمانة) هذا حكمها مع وجوب الحفظ والأداء عند الطلب واستحباب قبولها (فلا تضمن بالهلاك)