6829 – 0116
Question:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم جناب مولانا صاحب میرا سوال یہ ہے کہ میری دوست نے نکاح کیا ہے جبکہ لڑکا سعودی عرب، لڑکی انگلینڈ اور نکاح خواں صاحب پاکستان میں مقیم تھے، نکاح کے موقع پر سب لوگ مختلف جگہوں پر تھے۔ لڑکے کے والدین البتہ پاکستان نکاح خواں کے ساتھ تھے، لڑکی کی طرف سے بھی لڑکے کے والدین اس نکاح کے گواہ بنے دونوں کی رضامندی سے لڑکے کے والدین نے نکاح پڑھایا جبکہ لڑکی کے والدین یا کوئی بھی اس میں شامل نہیں تھا ، وہ ان سب حالات سے نا واقف ہیں۔ اب جس نکاح خواں نے ان کا نکاح پڑھایا اس نے پہلے فون پے لڑکی سے پوچھا اور فون بند کردیا، پھر لڑکے کو فون کیا اور نکاح پڑھوایا، لیکن جو ولی مقرر کیا جاتا ہے ان سے نکاح خواں نے ایجاب و قبول نہیں پوچھا اور حق مہر بھی مقرر نہیں کیا گیاتھا کہ جبکہ دونوں فریق پاکستان آئیں گے تب باقی معاملات لکھ ہے جائیں گے۔ اب جب کہ ولی سے اجازت باقاعدہ نہیں کی گئی (لفظی صورت میں)تو یہ نکاح جائز ہے یا نہیں۔ نہ ہی لڑکا لڑکی نے ولی کے طور پے الفاظ مقرر کئے، صرف ان کو گواہ بنایا گیا کیونکہ نکاح خواں نے یہ باتیں تفصیلا بتائی بھی نہیں اور لڑکا لڑکی یا والدین بھی انجان تھے۔
Answer:
As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhū
In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.
نکاح ایجاب اور قبول سے منعقد ہوتی ہے بشرطیکہ دو گواہ موجود ہوں اور عاقدین ایک ہی مجلس میں ہوں ۔ صورت مسئولہ میں جب نکاح خواں نے لڑکی سے اسکی نکاح کرانے کی اجازت لےلی تھی تو نکاح کرانے کے وقت لڑکی یا لڑکی کے ولی کی موجودگی کی ضرورت نہیں ہیں، بلکہ نکاح خواں خود لڑکی کا وکیل ہوگا۔ البتہ اگر لڑکے نے نکاح خواں کے مجلس میں اپنی طرف سے کسی کو وکیل نہیں بنایا اور محض فون پر عقد نکاح کیا، تو مجلس متحد نہ ہونے کی وجہ سے نکاح منعقد نہیں ہوگی۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر لڑکے نے نکاح خواں کے مجلس میں کسی کو اپنی طرف سے وکیل بنایا ہو، تو نکاح منعقد ہوگئی اگر چہ مہر فورا مقرر نہیں کیا۔ اور اگر لڑکے نے اپنی طرف سے کسی ایسے شخص کو وکیل نہیں بنایا جو مجلس میں موجود تھا، تو اس صورت میں نکاح منعقد نہیں ہوئی۔
And Allāh Taʿālā knows best.
المبسوط للسرخسي — محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (ت ٤٨٣ هـ) 5/ 10
(قال:) رضي الله عنه بلغنا عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أن امرأة زوجت ابنتها برضاها فجاء أولياؤها فخاصموها إلى علي رضي الله عنه فأجاز النكاح، وفي هذا دليل على أن المرأة إذا زوجت نفسها أو أمرت غير الولي أن يزوجها فزوجها جاز النكاح وبه أخذ أبو حنيفة – رحمه الله تعالى – سواء كانت بكرا أو ثيبا إذا زوجت نفسها جاز النكاح في ظاهر الرواية سواء كان الزوج كفؤا لها أو غير كفء فالنكاح صحيح إلا أنه إذا لم يكن كفؤا لها فللأولياء حق الاعتراض
الهداية في شرح بداية المبتدي — علي بن أبي بكر بن عبد الجليل الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (ت ٥٩٣هـ) 1/ 185
النكاح ينعقد بالإيجاب والقبول بلفظين يعبر بهما عن الماضي ” لأن الصيغة وإن كانت للإخبار وضعا فقد جعلت للإنشاء شرعا دفعا للحاجة ” وينعقد بلفظين يعبر بأحدهما عن الماضي وبالآخر عن المستقبل……. ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع — علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (ت ٥٨٧هـ) 2/ 229
وأما ركن النكاح فهو الإيجاب والقبول. وذلك بألفاظ مخصوصة، أو ما يقوم مقام اللفظ
فتاوی دار العلوم زکریا — حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم ۔ 3/ 629
سوال: کیا زوج خود اپنے نکاح کا وکیل بن سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب: صورت مسئولہ میں اگر لڑکی نے کہا کہ میرا نکاح آپ سے کرادو تو شوہر وکیل نکاح بن کر اس لڑکی کا نکاح اپنے آپ سے کراسکتا ہے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع — علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (ت ٥٨٧هـ) 2/ 231
وأما بيان أن النكاح هل ينعقد بعاقد واحد أو لا ينعقد إلا بعاقدين فقد اختلف في هذا الفصل، قال أصحابنا: ينعقد بعاقد واحد إذا كانت له ولاية من الجانبين، سواء كانت ولايته أصلية، كالولاية الثابتة بالملك والقرابة، أو دخيلة كالولاية الثابتة بالوكالة
المحيط البرهاني — برهان الدين أبو المعالي محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (ت ٦١٦ هـ) 3/ 84
وإذا تزوجها ولم يُسمِّ لها مهراً ثم سمى لها مهراً، أو فرض لها مهراً، أو رافعته إلى القاضي ففرض لها مهراً جاز ويكون ذلك تقديراً لمهر المثل.
وفي «الفتاوى» : سئل أبو القاسم عن امرأة زوجت نفسها بغير مهر، وليس لها مثل في قبيلة أبيها في المال والجمال؛ قال: ننظر إلى قبيلة أخرى مثل قبيلة أبيها فيقضي لها
فتاوی قاسمیہ — حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی ۔ 116 /13
ٹیلیفون پر نکاح جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نکاح کی صحت کے لئے مجلس عقد اور حضور شاہدین شرط ہے، جو ٹیلیفون کی صورت میں ممکن نہیں ہے،
کتاب النوازل — مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصورپوری ۔ 77-79 /8