Skip links

Golf Competition Vouchers

6829 – 0038

So what happens is when we play in the competition we pay for our golf rounds and to enter is about r30 extra

The top 5 or 6 are given vouchers from this extra money that all players have paid to enter the competition

E.g winner receives a voucher of r300 to use towards golf annual fees or playing fees for future rounds of golf

The prize money isn’t sponsored by any 3rd party company

So… the money that they collect per competition day goes to the winners as vouchers to use at MCC.

PLZ check if this is halaal or should we forfeit all our bucks

As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhū

In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.

The method of play described in your query pertains to gambling, an activity where there is a potential for each participating party to either gain or lose. There is a chance of benefiting from the money of the opposing party or losing one’s own money to the opposing party. Gambling has been explicitly prohibited in the Qur’an, as stated in the following verse:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة: 90)

Translation: “O you who believe, intoxicants, gambling, (dedication of) stones, and (divination by) arrows are an abomination of Shaytān’s work, so stay away from it so that you may be successful.”

Hence, the aforementioned method of play is not permissible. Vouchers obtained as winnings must be forfeited, and any monetary prizes acquired from the competition should be returned to their original owners without any personal benefit.

And Allāh Taʿālā knows best.

 المبسوط للسرخسي —  محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (ت ٤٨٣ هـ) 11/ 18

‌والقمار ‌حرام في شريعتنا، ولم يكن حراما في شريعة من قبلنا

المحيط البرهاني — برهان الدين أبو المعالي محمود بن أحمد بن عبد العزيز بن عمر بن مَازَةَ البخاري الحنفي (ت ٦١٦ هـ) 5/ 323

فإن شرطوا لذلك جعلاً، فإن شرطوا الجعل من الجانبين فهو حرام.

وصورة ذلك: أن يقول الرجل لغيره: تعال حتى نتسابق، فإن سبق فرسك، أو قال: إبلك أو قال: سهمك أعطيك كذا، وإن سبق فرسي، أو قال: إبلي، أو قال: سهمي أعطني كذا، وهذا هو القمار بعينه؛ وهذا ‌لأن ‌القمار ‌مشتق ‌من ‌القمر الذي يزداد وينقص، سمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويستفيد مال صاحبه، فيزداد مال كل واحد منهما مرة وينتقص أخرى، فإذا كان المال مشروطاً من الجانبين كان قماراً، والقمار حرام، ولأن فيه تعليق تمليك المال بالخطر، وإنه لا يجوز

رد المحتار على الدر المختار— ابن عابدين، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الدمشقي الحنفي (ت ١٢٥٢ هـ) 6/ 403

(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز ‌أن ‌يستفيد ‌مال ‌صاحبه وهو حرام بالنص

فتاوی محمودیہ – فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ (ت ١٤١٧هـ) 441 /16

سوال : ہمارے ایک دوست کی اور میری ایک مسئلہ میں بحث ہوگئی ہے، ہم دونوں کی رضامندی سے فیصلہ آپ پر چھوڑ رہے ہیں ،مسئلہ حسب ذیل ہے:

اکثر رسالہ میں آنجناب نے علمی معمہ دیکھا ہوگا ، اس کی صحیح خانہ پری کرنے پر انعام دیا جا تا ہے ۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ یہ ایک قسم کا قمار ہے، کیونکہ ایک روپیہ کے بدلے میں زیادہ روپے ملتے ہیں ۔ میں نے کہا کہ یہ قمارنہیں ہے، بلکہ ایک روپیں داخلہ ہے اور انعام اس ایک روپیہ پرنہیں ملتا ، ورنہ ہر داخلہ لینے والا انعام کا مستحق ہوتا، بلکہ مل ( صحیح خانہ پری ) ہی باعث انعام ہے، یہی وجہ ہے کہ جس کا جتنے درد عمل میں ہوگا وہ ویسے ہی انعام کا مستحق گردانا جائے گا ۔ فقط ۔

الجواب حامداومصلياً: آپ کے دوست نے اس کے ناجائز ہونے کی ایک وجہ ( قمار ) تجویز کی ہے، آپ نے اس کے جائز ہونے کی ایک وجہ نکالی جو کہ در حقیقت اس کے ناجائز ہونے کے لئے مؤکد و مؤید ہے یعنی ربوا، پس اس کے نا جائز ہونے کی دو وجہ آپ کے دونوں کے مجموعی کلام سے حاصل ہو گئیں: ایک: قمار، کیونکہ انعام نہ ملنے کی صورت میں رو پی ضائع ہو گیا۔ دوسری وجہ: ربوا، کیونکہ ایک روپیہ دے کر زیادہ روپیہ حاصل ہوۓ ۔ ربوا اور قمار دونوں نصاً ممنوع ہیں۔ یہ توجیہ کہ ایک روپیہ تو فیس داخلہ ہے اور انعام معاوضہ وا جرت ہے خانہ پری کی فقہی نظر میں وجہ نہیں، بلکہ تو جہ محض ہے ، اس کی اتنی حیثیت نہیں جتنی فیس واخلہ ایک روپیہ کی ، اس پر انعام نہیں لے گا ۔ یہ عمل صحیح نہیں۔

 النهاية في شرح الهداية — حسين بن علي السغناقي الحنفي (ت ٧١٤ هـ) 23/ 118 بترقيم الشاملة آليا

وعلى هذا قالوا: لو مات رجل وكسبه من بيع الباذِق أو الظلم أو أخذ الرشوة إن تورَّع الورثة عن ذلك فهو أولى، ويردون على أربابها إن ‌عرفوهم، وإن لم يعرفوهم تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدّق إذا تعذر الرد، كذا ذكره الإمام المحبوبي/ في “الجامع الصّغير”

   تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي — عثمان بن علي بن محجن البارعي ، فخر الدين الزيلعي (ت٧٤٣هـ) 6/ 27

وعلى هذا قالوا لو مات رجل، وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذوا منه شيئا، وهو أولى لهم، ويردونها على أربابها إن ‌عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه

فتاوی دار العلوم زکریا — حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم ۔  403 /5

مسلمان کے پاس سود کا مال آجائے تو مسلمان اس کا مالک نہیں بنتا بلکہ اس کو لوٹانا ضروری ہے، اگر مال کا مالک معلوم ہو تومالک کو واپس کردے اور اگر مالک معلوم نہ ہو تو بلا نیت ثواب صدقہ کردیا جائے۔