Skip links

Females on WhatsApp Groups with Non-Maḥrams

6829 – 0031

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

Hope mufti saheb is well.

Wanted to ask

What is the permissibility of a lady being on a WhatsApp group with non mahrams ?

As salām ʿalaikum wa raḥmatullāhī wa barakātuhū

In the Name of Allāh, the Most Gracious, the Most Merciful.

The sharīʿah has emphasized on eliminating all potential paths to fitnah, hence the order of segregation of genders, lowering of gazes, and the laws of ḥijāb. The safest and most appropriate will be for females to stay away from mixed WhatsApp groups which may lead to different avenues of Fitnah.

In the case where a need exists for a female to be on a WhatsApp group with other non-maḥram males, it would be advisable for her maḥram to also be added to the group.  The communication should nonetheless be conducted in a modest, restrained manner and limited to the extent of need, bearing in mind that the sharīʿah has forbidden informal interactions between non-maḥram males and females such as casual and jovial conversations, joking, or engaging in flirtatious behaviour.

The manner of conversation must be appropriate and devoid of anything that could be construed as enticing.

And Allāh Taʿālā knows best.

 رد المحتار على الدر المختار— محمد أمين، الشهير بابن عابدين (ت ١٢٥٢ هـ) 9/ 610

( فإن خاف الشهوة ) أو شك ( امتنع نظره إلى وجهها ) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم ، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره ؛ وقال ابن عابدين رحمه الله: ( قوله مقيد بعدم الشهوة ) قال في التتارخانية ، وفي شرح الكرخي النظر إلى وجه الأجنبية الحرة ليس بحرام ، ولكنه يكره لغير حاجة ا هـ وظاهره الكراهة ولو بلا شهوة ( قوله وإلا فحرام ) أي إن كان عن شهوة حرم ( قوله وأما في زماننا فمنع من الشابة ) لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة كما قدمه في شروط الصلاة

امداد الفتاوی — حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب (ت ١٣٦٢هـ)  9/  229

عورت کو تمام اعضاء کا پردہ فرض ہے، بجز چہرہ اور کفین اور قد مین کے اور آواز میں اختلاف ہے ،مگر صحیح یہ ہے کہ وہ عورۃ نہیں ہے مگر جوان عورت کو بے ضرورت اعضائے غیر مستورہ کا اجنبی کو دکھانا اور بدون حاجت اس سے کلام کرنا منع ہے، نہ اس وجہ سے کہ ستر ہے بلکہ بخوف فتنہ۔

کتاب النوازل — مولانا مفتی سید محمد سلمان صاحب منصورپوری ۔ 107 /17

میسج پر گفتگو بھی آمنے سامنے گفتگو کی مانند ہے، اس لئے جس طرح اجنبی لڑکی سے بالمشافہ گفتگو منع ہے، اسی طرح میسج کے ذریعہ بھی گفتگو جائز نہیں۔

 القرآن الكريم سورة:33 – آية:32

إن ٱتقيتن فلا تخضعن بٱلقول فيطمع ٱلذى فى قلبهۦ مرض وقلن قولا معروفا

فتاوی دار العلوم فتاوی دار العلوم زکریا — حضرت مولانا مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم  ۔  228 /7

عورت کی آواز کا دارو مدار خوف فتنہ پر ہے اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو محض آواز سننے میں چنداں حرج نہیں ہے جب کہ آواز میں لچک نہ ہو ، عام لہجہ میں بات کرے ، ہاں اگر فتنہ کا اندیشہ ہے تو سنا جا ئز نہیں ہے، البتہ چونکہ فی زماننا فتنہ فسادلوگوں پر غالب ہے اس لیے بلاضرورت اجنبیہ کی آواز سننے سے احتراز کرنا چاہئے ۔ اگر چہ اصح قول کے مطابق عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں ہے ۔ ہاں ضروری بات چیت کی اجازت ہے۔

فتاوی دار العلوم دیوبند — فتوی نمبر 165600

دور حاضر میں فواحش ومنکرات کی کثرت اور ان کے شیوع کی وجہ سے عمومی طور پر دلوں کا حال اچھا نہیں رہا؛ اس لیے آج کل عورتوں کو غیر محرم مردوں سے اور مردوں کو اجنبیہ خواتین سے بہت زیادہ احتیاط چاہیے ؛ لہٰذا آپ کا کسی گروپ میں دو اجنبیہ خواتین کو ممبرس بنانا میری نظر میں خلاف احتیاط اور فتنہ کا مقدمہ ہے۔

دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن — فتوی نمبر 144105200052

جس طرح مردو عورت کے خارجی اختلاط میں بہت مفاسد ہیں، اسی طرح بلکہ بعض اعتبار سے اس سے بڑھ کر واٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا کے گروپوں میں مردوں اور عورتوں کا ایک ساتھ ایڈ رہنا بھی دسیوں مفاسد کا سبب ہے، لہذا ایسے گروپس میں از خود ایڈ ہونا یا کسی کے ایڈ کرنے کی صورت میں گروپ میں رہنا درست نہیں، ان سے نکلنے کا اختیار ہو تو نکلنا ضروری ہے، اگر نکلنا اختیار میں نہ ہو تو گروپ میں جاری بات چیت اور دیگر امور کا حصہ نہ بنیے، ہر وہ شخص خواہ مرد ہو یا عورت جو  ان گروپس میں حصہ دار ہوگا، وہ اپنے عمل کے بقدر مفاسد کا ذمہ دار ہوگا۔فقط واللہ اعلم